
لاہور(خصوصی رپورٹ سید تبسم عباس شاہ) پاکستان نیوی کے مہران نیول بیس کراچی پر جدید اسلحہ سے لیس دہشت گردوں کا صرف ایک پسٹل کے ساتھ 12 منٹ تک مقابلہ کرنے والے بہادر شہید لیفٹیننٹ سید یاسر عباس رضوی کے حوصلہ مند اور بہادر والدین کی طرف سے شہدائے پاکستان کی تاریخ میں نئی مثال رقم،ہر سال اکلوتے بیٹے کی شہادت والے دن برسی کے بجائے جشن مناتے ہیں جو کہ کسی بھی والدین کیلئے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے،
بیٹے کی برسی والے دن شہادت کا جشن وہی والدین منا سکتے ہیں جن پر اللہ تعالی کا بے انتہاکرم ہواور اس نے انہیں بہت بڑا جگر عطا کیا ہو،الحمداللہ جس کاعملی نمونہ شہید کے والد ین ہیں۔

وہ خود تو عام انسان نہیں تھا لیکن اس کے والدین بھی یقینا عام انسان نہیں ہیں۔روزنامہ صدائے سچ کے ساتھ خصوصی نشست میں لیفٹیننٹ یاسر عباس شہید کے والدین کی گفتگوتمام شہدائے پاکستان کے ورثااور پاکستانی قوم کیلئے باعث تقویت اور مشعل راہ ہے۔
شہید کے والد کرنل (ر)سید جعفر عباس رضوی اور والدہ نے بتایا کہ یاسر عباس شروع سے ہی عام انسان نہیں تھا ،اس میں بہت زیادہ انسانی بنیادیںتھیں۔وہ اپنی تمام چیزیں مستحق ساتھیوں میں تقسیم کر دیتا تھا،مستحق افراد کی ہر حوالے سے بے پناہ مدد کرتا تھا لیکن اس کی خبر دوسرے ہاتھ کو بھی نہیں ہونے دیتا تھا ۔ہم نے اسے کتاب پڑھتے دیکھا اور نہ ہی اس کے ہاتھ میں کتاب دیکھی لیکن اس کے باوجود کلاس میں سیکنڈ ،تھرڈ پوزیشن لیتا تھا ،ہم اسے کہتے تھے کہ ہم چاہتے ہیں کہ پہلی پوزیشن لے اور تیری تصویریں اخباروں میں چھپیں۔جس پر وہ کہتا تھا کہ کلاس میں پوزیشن میرا مسئلہ نہیں ،ایک دن آپ کی یہ خواہش پوری کر تے ہوئے بہت بڑی پوزیشن لوں گا اور میری تصویریں اخباروں اور ٹی وی چینلز پر چلیں گی ۔

یاسر عباس کی والدہ کا کہنا تھا کہ جب پہلی دفعہ زیارات مقدسہ سے واپس آئی تو اپنے بھائی اور خاندان کے بزرگ کو بتایا کہ یاسر عباس شہید ہو جائے گالیکن بعد میں یہ بات بھول گئی جو کہ اس کی شہادت کے بعد بھائی اور خاندان کی بزرگ شخصیت نے مجھے یاد دلائی۔پاکستان نیوی کو جوائن کرنے کے بعد یاسر عباس کی شادی کیلئے بات چیت شروع کی تو ہم لڑکی کے والدین کے گھر اور وہ ہمارے گھر آئے اوربہت خوش واپس گئے
جس پر ہمیں بہت حیرانی ہوئی لیکن بعد ازاں یاسر عباس کے سوئم کے بعدمذکورہ لڑکی کے والد نے بتایا کہ ہم رشتہ دینا چاہتے تھے لیکن استخارہ منع آیا اور ہماری خواہش پر تین بار استخارہ کیا گیا لیکن تینوں بار منع آیا،جس پرہم بھی حیران بھی تھے اور پریشان بھی لیکن استخارہ کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی بوجھل دل سے نے انکار کر دیا۔
اب ہمیں اس کی وجہ سمجھ آئی ہے کہ یاسر عباس نے تو شہید ہونا تھااس لیے استخارہ منع آیا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھاکہ ہمارے خاندان کا تعلق پاکستان آرمی سے بہت گہرا ہے کیونکہ یاسر عباس کے نانا ،تایا اور والد بھی پاک فوج سے ریٹائرڈ کرنل ہیں اور اب یاسر عباس سے متاثر ہو کر میرے دو بھتیجوں نے بطور کمیشنڈ افسرپاکستان آرمی کو جوائن کیاہے۔یاسر عباس کی تین بہنیں ہیں جن میں سے ایک بڑی اور دو چھوٹی ہیں ۔

اس نے شہادت سے قبل اپنی بڑی بہن کو بتا دیا تھا کہ اس نے شہید ہوجانا ہے ۔اسی محبت میں بہن نے بعدازاں اپنے ایک بیٹے کا نام یاسر عباس رکھا ہے جو کہ ہوبہو یاسر عباس لگتا ہے ۔
کرنل جعفر عباس کا کہنا تھا کہ ہم یاسر عباس کی شہادت والے دن اس کی برسی کے بجائے ہر سال جشن مناتے ہیں اور اس حوالے سے باقاعدہ کیک کاٹتے ہیں۔برسی سے غم کا تاثر جاتا ہے ،یاسر عباس خواب میں ہمیں کہتا ہے کی میں بہت خو ش ہوںاس لیے میرے والدین بھی ہر وقت خوش رہیں ۔”یہ نہیں کہ ہم اسے بھول گئے ہیں یا اس کی کمی ہمیںمحسوس نہیں ہوتی ”۔ہر جگہ،ہر وقت اس کی کمی محسوس ہوتی ہے ،ہم والدین ہیں اور وہ ہمارا اکلوتا بیٹا ہے۔لیکن وہ اتنا قابل فخر کام کر گیا ہے جو نہ صرف ہمارے اور ہمارے خاندان کیلئے بلکہ پوری پاکستانی قوم اور افواج پاکستان کیلئے قابل فخر ہے۔
یاسرعباس بنیادی طور پر ایروناٹیکل انجینئر تھا اس لیے اسے نہ گولی چلانے کی اس طرح پریکٹس اور تجربہ تھا اور نہ ہی دہشت گردوں سے لڑنا اس کی ذمہ داری تھی لیکن اس کے باوجود وہ جس بے جگری سے دہشت گردوں کی گولیوںکی برسات میںکود گیا وہ پاکستانی قوم کی بہادری کا نشان بن گیا۔اس کا یہ کردار ہمارے لیے باعث خوشی ہے۔

ہمارے بیٹے کو پاکستان پر دہشت گردوں کے پے درپے حملوں کا شدید رنج تھا،اس کے ساتھیوں اور سینئرز کے مطابق اسے نیول بس پر دہشت گردوں کے حملے کا (جس میں پاکستان نیوی کے کئی نوجوان شہید اور زخمی ہو گئے تھے)سخت غصہ تھا ۔اس واقعے کے بعد وہ اپنے ساتھیوں اور سینئرزسے کہتا تھا کہ میںنے اس طرح دھماکے میں شہید نہیں ہونا بلکہ ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے سینے پر گولیاں کھا کر شہید ہوں گا۔
جس پر اس کے ساتھی اسے کہتے تھے کہ تجھے کیا ہو گیا، تو ایروناٹیکل انجینئر ہے تو جہازوں کو ٹھیک کرے گایا گن لے کر لڑائی کرے گا ؟لیکن وہ بضد تھا کہ اسے وطن عزیز اور اپنے دین کی خاطر لڑ کر شہید ہونا ہے۔ہمیں بھی شہادت سے ایک دو سال قبل ہی یاسر عباس کے شہید ہونے کے حوالے سے اشارے مل رہے تھے ۔کرنل (ر)جعفر عباس نے بتایا کہ ہمارا خاندان تو شروع سے ہی نواسہ رسولۖ حضر ت امام حسین اور تمام شہدائے کربلا سے انتہائی متاثر ہے لیکن یاسر عباس شہید علمدار کربلا حضرت عباس کی شجاعت اور وفا سے بے پناہ متاثر تھا جس کا ذکر وہ اکثر کرتا رہتا تھا۔

چنانچہ 22مئی 2011کی رات میرے ساتھ ٹیلی فون پر بات کر رہا تھا کہ میری اچانک اپنے ہمسائے سے ملاقات ہو گئی تو میں نے فون بیوی کو دے دیا کہ آپ ماں بیٹا بات کر لیں ،ان کی گفتگو کو تھوڑا وقت ہی ہوا ہو گا کہ یاسر عباس نے اچانک کہا کہ دھماکہ ہو گیا ہے اور میں وہاں جا رہا ہوں
یہ کہہ کر فون بند کیا اور ہم ٹی وی کے سامنے خبر دیکھنے کیلئے بیٹھ گئے تو تھوڑی دیر بعد تمام چینلز پر مہران نیول بیس پرحملے کی خبر چلنا شروع ہو گئی کہ رات کے اندھیرے میں جدید اسلحہ سے لیس متعدد دہشت گردوں نے راکٹوں سے حملہ کر دیا ہے۔آدھے گھنٹے بعد ٹی وی پر یاسر عباس کی شہادت کی خبر چلنا شروع ہو گئی ۔

اس کے ساتھیوں کے بقول وہ اپنی ڈیوٹی پر حملے کی جگہ سے دو کلو میٹر دور ڈیوٹی روم میںموجود تھا ۔ انجینئر ہونے کی وجہ سے اسے دہشت گردی سے نمٹنے کی تربیت ،پریکٹس اور نہ تجربہ تھا لیکن اس کے باوجود جب اس نے دیکھا کہ کچھ گارڈ دھماکے کی آواز سن چھپ گئے ہیں اور جو موجود ہیں وہ بھی لڑنے کے بجائے یاسر عباس سمیت سب کوآگے دھماکے والی جگہ پرجانے سے روک رہے ہیں تو وہ وطن عزیز کے وقار کی خاطرگارڈزکے روکنے کے باوجوڈیوٹی پسٹل لیکر اکیلا آگے بڑھا ۔دو کلومیٹر کا فاصلہ صرف تین منٹ میں طے کر کے دہشت گردوں کے سامنے پہنچ گیا اور دلیری ،جوانمردی سے آمنے سامنے مقابلہ کرتے ہوئے دہشت گردوںکو 12منٹ تک روکے رکھا ۔
جن کا ہدف چینی انجینئرز کو یرغمال بنانا /اغوا ء کرنا تھا ۔یاسر عباس کی دہشت گردوں سے لڑائی کے دوران چینی انجینئرز کمروں سے نکل کر بلٹ پروف گاڑیوں میں بیٹھ گئے ۔

دہشت گردوں نے ان کی گاڑیوں پر بھی فائر کئے لیکن انہیں بحفا ظت نکال لیا گیا اور انتہائی حساس آلات ،جدید جہازوںاور عملے کو بھی محفوظ جگہ پر منتقل کر لیا گیا۔
اس طرح یاسر عباس نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا ۔ میرے بیٹے نے اس کے ساتھیوں کے بقول اپنے وعدے کے مطابق سینے پر تین گولیاں کھائیں اور جام شہادت نوش کر کے ہمارے سر فخر سے بلند کر دیے ۔بعد ازاں سیکیورٹی آپریشن کے دوران دہشت گردوں سے کئی
روز کا خشک راشن اوربھاری آتشیں اسلحہ برآمد ہوا جس سے ان کے ناپاک عزائم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔لیفٹیننٹ یاسر عباس کی بہادری،جرات اور حوصلے کے اعتراف میں اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے نشان حیدردینے کی سفارش کی لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے 14اگست 2011کو نشان حیدر دینے کے بجائے ستارہ بسالت سے نوازا۔آ
خر میں ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کو مزید موثر اور تیزکر کے پاکستان دشمن قوتوں کو مکمل طور پر شکست دی جائے ۔