تازہ ترین
ملبورن کی معطر شام اور اقبال کی جاوداں خوشبو
تحریر: نثار حسین
میلبورن کی بہار اپنے عروج پر تھی۔ ہوا میں نمی، فضاؤں میں ہلکی سی خنکی اور بارش کے باریک قطرے روشنی میں موتیوں کی طرح جھلملاتے تھے۔
اس شام فضا میں فقط موسم کی تازگی نہیں تھی بلکہ فکر و فن کی مہک بھی رچی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ظفر اقبال کے اصرار پر ہم ڈاکٹر ماجد گوندل کے اُس ڈیرے پر پہنچے جو پاکستان سمیت دنیا بھر سے آنے والی علمی و ادبی شخصیات کے لیے ایک محبت بھرا مسکن بن چکا ہے۔

وہاں داخل ہوتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے دیس کی مٹی کی خوشبو پردیس کی ہوا میں تحلیل ہو گئی ہو۔
اس علمی محفل کے روحِ رواں ڈاکٹر ماجد گوندل، ڈاکٹر ظفر اقبال اور ڈاکٹر یوسف ہارون اور رانا شاہد تھے، جن کی موجودگی نے فضا کو وقار عطا کیا۔ محفل کا مرکزِ نگاہ کینیڈا سے تشریف لانے والے معروف محققِ اقبالیات ڈاکٹر حسن تقی عابدی تھے، جن کے ہمراہ ایڈیلیڈ سے آنے والے ڈاکٹر افضل رضوی بھی موجود تھے۔ رانا شاہد نے تقریب کو جس سلیقے سے سجایا، اس کی داد نہ دینا بے انصافی ہوگی۔
تلاوتِ کلامِ پاک کے بعد ڈاکٹر ظفر اقبال نے اقبال کا وہ شاہکار کلام پڑھا جس نے محفل کو وجدانی رنگ میں ڈبو دیا:
یہ بھی پڑھیں: زندگی جینے کیلئے ہے، بھگتنے کیلئے نہیں
“لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب!”
یوں لگا جیسے اقبال کا کلام فقط الفاظ نہیں بلکہ دلوں کے در کھولنے کی کنجی ہے۔
جب ڈاکٹر تقی عابدی نے گفتگو کا آغاز کیا تو سب پر خاموشی طاری ہو گئی۔ ان کی آواز میں علم کا وزن اور لہجے میں دل کی حرارت تھی۔ انھوں نے فرمایا کہ اقبال کو اسی طرح پیش کیا جائے جیسا وہ ہیں؛ اقبالیات اور دینیات کو الگ الگ رکھا جائے۔ اقبالیات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اقبال کا پیغام سمجھنے کے لیے نہ ایم فل درکار ہے نہ پی ایچ ڈی، بلکہ ایک جاگتا دل اور بیدار ضمیر کافی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اقبال نے بچوں کے لیے جو نظمیں لکھیں، وہی فکرِ اقبال کی بنیاد ہیں۔ اگر ہم اقبال کو بچوں کی سطح سے متعارف کرائیں تو ان کی شاعری نصاب سے بڑھ کر کردار اور تہذیب سازی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
ڈاکٹر عابدی نے ایک واقعہ سنایا کہ 1932ء میں جب علامہ اقبال مصر گئے تو نوجوانوں نے کہا: “ہمیں ایک نصیحت کیجیے۔”
اقبال نے کاغذ کا ایک ٹکڑا اٹھایا اور انگریزی میں لکھا:
“Be faithful to Prophet Muhammad.”
اور پھر فرمایا:
“کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں،
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں!”
یہ بھی پڑھیں: نیو کیسل: چار دن، ایک خواب
اقبال نے نوجوانوں سے کہا کہ تم جہاں بھی رہو، اگر عشقِ محمدی تمہارے دلوں میں زندہ ہے تو تم کبھی گمنام نہیں رہو گے۔
یہی پیغامِ عشقِ محمدی وہ مرکز ہے جس کے بغیر نہ خودی مکمل ہے نہ ایمان۔ ڈاکٹر تقی عابدی کے لہجے کی سچائی اور بیان کی سادگی نے سامعین کے دلوں میں اقبال کا پیام یوں بٹھا دیا کہ وہ علم کی بات وعظ نہیں بلکہ دل کی صداقت محسوس ہوئی۔
اقبال کے نزدیک مردِ مومن وہ ہے جو یقین، عشق اور عمل کا پیکر ہو:
“یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم”
یہ مصرعہ محض شاعرانہ نہیں بلکہ زندگی کا فارمولا ہے۔ اقبال کا مردِ مومن زمانے کے دھارے میں بہنے والا نہیں، بلکہ خود زمانہ تخلیق کرنے والا ہے۔ وہ اپنے یقین میں اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ حالات کے طوفان بھی اس کا رخ نہیں موڑ سکتے۔
اقبال فرماتے ہیں:
“مردِ مومن کو پھر ملا نہ تیری نگاہ میں،
وہی ہے بندۂ حر جس کی ضرب کاری ہے!”
اقبال کے نزدیک مردِ مومن وہ انسان ہے جو اللہ پر پختہ یقین رکھتا ہےحالات کی سختیوں سے متزلزل نہیں ہوتا۔
وہ اپنی ذات کی پہچان رکھتا ہے، اپنی قوت کو کائنات کی تعمیر میں استعمال کرتا ہے، اور “خودی” کا سچا مظہر ہوتا ہے۔ اس کی محبت خدا، رسول ﷺ اور انسانیت سے خالص ہوتی ہے:
“عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰ،
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام”
وہ کسی جبر، خوف یا لالچ کے آگے نہیں جھکتا:
“خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے”
یہی “خودی” کا وہ فلسفہ ہے جسے ہم نے محض کتابوں کی زینت بنا رکھا ہے، عمل کی دنیا میں جگہ نہ دی۔
78 سال گزرنے کے باوجود یہ سوال آج بھی تازہ ہے کہ ہم نے اُس فکر پر کتنا عمل کیا جس نے پاکستان کا تصور دیا؟ اقبالیات پر مقالے لکھے گئے، پی ایچ ڈیز ہوئیں، کانفرنسیں ہوئیں، مگر اقبال کا اصل پیغام عمل، خودی اور عشق ہماری اجتماعی زندگی میں ناپید ہے۔ ہم نے اقبال کو صرف تقریبات اور ایوارڈز تک محدود کر دیا ہے۔ اقبال کا خواب تو ایک ایسی قوم کا تھا جو شعور و عمل کی روشنی سے دنیا بدل دے، مگر ہم نے وہ فکر محفلوں کی نذر کر دی اور کتابوں کے حاشیوں میں محفوظ کر کے بھول گئے۔
اقبال کا کلام اگر دل سے سمجھا جائے تو وہ آج بھی ہماری سمت درست کر سکتا ہے۔ انھوں نے فرمایا:
عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
یعنی انسان کا مقام اس کے عمل سے متعین ہوتا ہے۔ علم، فکر اور تحقیق تب تک ادھورے ہیں جب تک وہ کردار کی صورت میں ظاہر نہ ہوں۔
میلبورن کی اُس شام میں، بارش کے ہلکے قطروں کے ساتھ جب ڈاکٹر تقی عابدی اقبال کی بات کر رہے تھے، تو یوں محسوس ہوا جیسے اقبال خود کہیں قریب بیٹھے مسکرا رہے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں:
“میرے خواب ابھی زندہ ہیں، بس تمہیں عمل کی راہ پر چلنا ہے۔”
محفل کے اختتام پر لطفِ طعام کی بھاپ اور باتوں کی گرمی نے دلوں کو مزید روشن کر دیا۔ کسی نے کہا، “ہمیں اقبال کی فکر کو نصاب سے نکال کر حیات میں اتارنا ہے۔” اور یہی وہ لمحہ تھا جب محسوس ہوا کہ آج کی یہ شام صرف ایک تقریب نہیں، بلکہ ایک فکری تجدید تھی۔
اقبال نے کہا تھا:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ڈاکٹر تقی عابدی جیسے دیدہ ور اقبال کے کلام میں نئی روح پھونک دیتے ہیں۔ میلبورن کی یہ اقبالی شام صرف ایک یاد نہیں بلکہ ایک عہد ہے کہ ہم اقبال کو پڑھنے سے آگے بڑھ کر اقبال کو جینے کا آغاز کریں۔ کیونکہ جب تک ہم فکر کو عمل میں نہیں ڈھالتے، اقبال کی شاعری ہمارے دلوں میں نہیں اترے گی۔
اقبال کا پیغام آج بھی وہی ہے:
خودی، یقین، عشقِ محمدی اور عمل
یہی وہ خوشبو ہے جو ہر زمانے کے اندھیروں کو منور کرتی ہے۔
-
ایکسکلوسِو2 ہفتے agoسیکرٹری اطلاعات کی پوسٹ کیلئے پانچ افسران کا انٹرویو، طارق خان بھی شامل
-
پاکستان3 ہفتے agoمسلم لیگ (ن) کے رہنما افتخار احمد چیمہ انتقال کر گئے
-
ایکسکلوسِو2 مہینے agoانٹیلی جنس ایجنسیوں کے5 نامزدافسران پر اعتراضات، بیرون ملک پریس قونصلر، اتاشیوں کی پوسٹنگ کامعاملہ لٹک گیا
-
پاکستان1 مہینہ agoخدا نخواستہ 600 افراد جاں بحق ہوئے تو لاشیں کہاں ہیں؟،مریم نواز
-
پاکستان2 مہینے agoاسلام آباد پولیس کا نیشنل پریس کلب پر دھاوا، صحافیوں پر بدترین تشدد، انسانی حقوق تنظیموں کی مذمت
-
ٹیکنالوجی2 مہینے agoiOS 26 میں مکمل اردو سپورٹ — iPhone صارفین کے لیے نئی سہولت
-
پاکستان3 ہفتے agoمعصومہء سندھ کے روضہء اطہر کی تعمیر میں تاخیری حربے تشویشناک ہیں، کراچی ایڈیٹر کلب
-
تازہ ترین2 مہینے agoپاکستان کا ورچوئل اثاثہ جات ریگولیٹری اتھارٹی (PVARA) قائم

