پاکستان
ٹیکسلا، سیاسی بساط دوبارہ بچھ گئی، نئے اتحاد بننے اور پرانے ٹوٹنے لگے
تحریر: سید مشتاق حسین شاہ نقوی (بیورو چیف روزنامہ صدائے سچ)
پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی صوبے کی سیاست ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے بلدیاتی نظام کی بحالی کے احکامات کے بعد نہ صرف سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں بلکہ مختلف گروپوں اور جماعتوں نے مقامی سطح پر اپنی صف بندیاں بھی تیز کر دی ہیں۔ تحصیل ٹیکسلا ان علاقوں میں سرفہرست ہے جہاں ہر الیکشن سے پہلے سیاسی بساط نئے انداز میں بچھتی ہے۔
ٹیکسلا کی سیاست ہمیشہ سے روایتی اثر و رسوخ، برادریوں اور مقامی تعلقات کے امتزاج سے پروان چڑھی ہے۔ یہاں اس وقت کئی بڑے سیاسی دھڑے سرگرم ہیں، جن میں سابق وفاقی وزیر غلام سرور خان گروپ سرفہرست ہے۔ غلام سرور خان نہ صرف ٹیکسلا بلکہ پورے حلقے میں ایک مضبوط سیاسی پس منظر رکھتے ہیں۔ ان کے گروپ کا اثر دیہی علاقوں میں گہرا ہے، جہاں ان کے دیرینہ کارکن اور حامی مضبوط تنظیمی نیٹ ورک کے ذریعے انتخابی فضا کو اپنے حق میں کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اس کے مقابل، کوہستان گروپ بھی اپنی سیاسی پوزیشن کو برقرار رکھنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اس گروپ کی جڑیں مقامی سطح پر مضبوط ہیں، اور ان کے رہنما روایتی حمایت اور عوامی روابط کے بل پر بلدیاتی سیاست میں بھرپور حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔
دوسری طرف، تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا مقامی ڈھانچہ بھی دوبارہ متحرک ہو رہا ہے۔ اگرچہ صوبے میں سیاسی حالات پی ٹی آئی کے لیے چیلنجز سے خالی نہیں، لیکن ٹیکسلا میں عوامی سطح پر اب بھی پارٹی کی قابلِ ذکر پذیرائی موجود ہے۔ نوجوان ووٹرز اور درمیانے طبقے کے لوگ اس جماعت کے لیے ایک بڑی امید کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی بھی ایک عرصے کے بعد تحصیل ٹیکسلا میں سیاسی طور پر فعال ہوتی نظر آ رہی ہے۔ پرانے رہنما اور نظریاتی کارکن دوبارہ متحرک ہوئے ہیں، اور مقامی سطح پر اتحاد یا انتخابی مفاہمت کے امکانات زیرِ غور ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی منظم انداز میں انتخابی مہم چلاتی ہے تو وہ بلدیاتی سیاست میں اپنی کھوئی ہوئی زمین کچھ حد تک واپس حاصل کر سکتی ہے۔
تحصیل ٹیکسلا کی سیاست میں ایک اور نمایاں کردار جمعیتِ اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کا ہے۔ اگر یہ جماعتیں باہمی ہم آہنگی اور انتخابی اتحاد کی راہ اختیار کر لیں، تو کئی علاقوں میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہیں۔ مذہبی ووٹ بینک، اگر متحد ہو جائے، تو وہ کسی بھی بڑے سیاسی دھڑے کے لیے خطرہ یا موقع دونوں بن سکتا ہے۔








اس سارے منظرنامے میں خڑپینچ کا کردار خاص اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ ٹیکسلا کے مختلف علاقوں میں موجود مختلف خڑپینچ اپنی اپنی برادریوں اور حلقوں میں گہرا اثر رکھتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور مقامی گروپ ان خڑپینچوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کیونکہ ان کے فیصلے اکثر انتخابی نتائج کا رخ متعین کر دیتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ تحصیل ٹیکسلا میں بلدیاتی انتخابات اس بار نہایت سخت اور دلچسپ مقابلہ ثابت ہوں گے۔
غلام سرور خان گروپ، کوہستان گروپ، تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی اور مذہبی جماعتوں کے درمیان صف بندیاں واضح طور پر بنتی جا رہی ہیں، اور امکان یہی ہے کہ کوئی بھی فریق آسانی سے سبقت حاصل نہیں کر پائے گا۔
موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں یہ الیکشن نہ صرف مقامی سطح پر سیاسی اثر و رسوخ کا امتحان ہوں گے بلکہ یہ پنجاب کی آئندہ سیاست کا رخ بھی متعین کر سکتے ہیں۔
ٹیکسلا میں جس قوت نے عوام کا اعتماد حاصل کیا، وہ آئندہ عام انتخابات میں بھی ایک نمایاں پوزیشن اختیار کرنے کی اہل ہوگی اس حوالے سے تفصیلی تجزیہ حلقہ وار اور ہر حلقے میں ہر پارٹی کے امیدوار کے حوالے سے انشاءاللہ قسطوار شائع کیا جائے گا مختلف حلقوں سے مختلف جماعتوں کے امیدواروں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی اپنی کارکردگی کے حوالے سے اور تنظیمی خدمات کے حوالے سے مجھے ضرور اگاہ کریں تاکہ کوئی کمی نہ رہ سکے اور بعد میں وہ گلہ نہ کر سکیں
-
ایکسکلوسِو2 ہفتے agoسیکرٹری اطلاعات کی پوسٹ کیلئے پانچ افسران کا انٹرویو، طارق خان بھی شامل
-
پاکستان3 ہفتے agoمسلم لیگ (ن) کے رہنما افتخار احمد چیمہ انتقال کر گئے
-
ایکسکلوسِو2 مہینے agoانٹیلی جنس ایجنسیوں کے5 نامزدافسران پر اعتراضات، بیرون ملک پریس قونصلر، اتاشیوں کی پوسٹنگ کامعاملہ لٹک گیا
-
پاکستان1 مہینہ agoخدا نخواستہ 600 افراد جاں بحق ہوئے تو لاشیں کہاں ہیں؟،مریم نواز
-
پاکستان2 مہینے agoاسلام آباد پولیس کا نیشنل پریس کلب پر دھاوا، صحافیوں پر بدترین تشدد، انسانی حقوق تنظیموں کی مذمت
-
ٹیکنالوجی2 مہینے agoiOS 26 میں مکمل اردو سپورٹ — iPhone صارفین کے لیے نئی سہولت
-
پاکستان3 ہفتے agoمعصومہء سندھ کے روضہء اطہر کی تعمیر میں تاخیری حربے تشویشناک ہیں، کراچی ایڈیٹر کلب
-
تازہ ترین2 مہینے agoپاکستان کا ورچوئل اثاثہ جات ریگولیٹری اتھارٹی (PVARA) قائم

