تازہ ترین
افغانستان سے سات پاکستانی شہریوں کی لاشیں بلوچستان منتقل
کوئٹہ( صدائے سچ نیوز)عالمی امدادی تنظیم ہلال احمر نے کہا ہے کہ افغانستان سے سات پاکستانی شہریوں کی لاشیں بلوچستان کے سرحدی شہر چمن منتقل کر دی گئی ہیں جن میں دو سکیورٹی اہلکار اور پانچ عام شہریوں کی ہیں۔
یہ اموات منگل اور بدھ کی درمیانی شب اور بدھ کی صبح چمن کے قریب پاک افغان سرحد پر ہونے والی جھڑپوں کے دوران ہوئیں جن میں دونوں جانب سے بھاری اسلحے کا استعمال کیا گیا۔
بلوچستان میں ہلال احمر کے سربراہ عبدالولی خان غبیزئی نے میڈیاکو بتایا کہ افغان طالبان نے سرحد کے قریب لاڈ سپیکر پر اعلان کیا کہ وہ پاکستانی شہریوں کی لاشیں ہلال احمر کے حوالے کریں گے جس کے بعد پاکستانی حکام نے تنظیم سے رابطہ کیا۔
سول ہسپتال چمن کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد اویس نے تصدیق کی کہ پانچ شہریوں کی لاشیں ہسپتال لائی گئیں۔ ان کے مطابق چار افراد مارٹر گولہ لگنے سے جبکہ ایک شخص کو سر پر گولی لگنے کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
ڈاکٹر اویس کے مطابق چار لاشوں کی شناخت کر لی گئی ہے جو چمن کے مقامی رہائشی تھے اور ان کی میتیں ضابطے کی کارروائی کے بعد ورثا کے حوالے کر دی گئی ہیں جبکہ ایک لاش کی شناخت اب تک نہیں ہوسکی۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق بابِ دوستی کے قریب جھڑپ کے دوران جان سے جانے والے اہلکاروں کی شناخت لانس نائیک سلیمان اور سپاہی صابر کے نام سے ہوئی۔ دونوں کی میتیں ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کر دی گئیں۔
ہلاک ہونے والے عام شہریوں میں سید علی ادوزئی، محمد اصغر عشے زئی، روزی خان صالح زئی اور نصیب اللہ صالح زئی شامل تھے جن کا تعلق چمن کے علاقوں ٹھیکیدار گلی بوغرہ کاریز اور ہندو سوز چوک سے تھا۔ چاروں کی تدفین ان کے آبائی علاقوں میں کر دی گئی جہاں فضا سوگوار رہی۔
محمد اصغر کے چچا شیر علی نے بتایا کہ میرے بھتیجے کی عمر صرف 20 سال تھی۔ وہ محنت مزدوری سرحد پار گیا تھا۔
ان کے بقول اصغر چمن سرحد کے بالکل قریب افغان شہر سپین بولدک کی ویش منڈی میں واقع کار شوروم پر کام کرتا تھا۔ منگل اور بدھ کی درمیانی رات وہویش منڈی میں موجود تھا جب گولہ باری میں کی زد آ گیا۔
شیر علی نے کہا کہ یہ جنگ عام لوگوں کی زندگیاں اور خوشیاں چھین رہی ہے۔ یہ جنگ بند اور دوبارہ نہیں ہونی چاہیے۔
چمن میں سرحد پر کام کرنیوالے مزدوروں کی تنظیم لغڑی اتحاد کے رہنما صادق اچکزئی کے مطابق سرحد کے قریب افغان علاقے سپین بولدک اور ویش مندی میں بڑی تعداد میں پاکستانی شہری اور مزدور کام کرتے ہیں۔ جب گولہ باری ہوئی تو یہ پاکستانی مزدور بھی زد میں آ گئے۔،
انہوں نے بتایا کہ مزدور سب سے زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس پناہ لینے کی جگہ بھی نہیں ہوتی۔
ان کا دعوی ہے کہ افغان حدود میں گولہ باری سے ہلاک ہونے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد دس سے زیادہ ہے۔ ان میں زیادہ تر وہ مزدور تھے جو سرحد پار سے گھوڑوں پر سامان لاتے تھے اور سرحد بند ہونے کے بعد افغانستان کی حدود میں پھنس گئے تھے۔
-
ایکسکلوسِو2 ہفتے agoسیکرٹری اطلاعات کی پوسٹ کیلئے پانچ افسران کا انٹرویو، طارق خان بھی شامل
-
پاکستان3 ہفتے agoمسلم لیگ (ن) کے رہنما افتخار احمد چیمہ انتقال کر گئے
-
ایکسکلوسِو2 مہینے agoانٹیلی جنس ایجنسیوں کے5 نامزدافسران پر اعتراضات، بیرون ملک پریس قونصلر، اتاشیوں کی پوسٹنگ کامعاملہ لٹک گیا
-
پاکستان1 مہینہ agoخدا نخواستہ 600 افراد جاں بحق ہوئے تو لاشیں کہاں ہیں؟،مریم نواز
-
پاکستان2 مہینے agoاسلام آباد پولیس کا نیشنل پریس کلب پر دھاوا، صحافیوں پر بدترین تشدد، انسانی حقوق تنظیموں کی مذمت
-
ٹیکنالوجی2 مہینے agoiOS 26 میں مکمل اردو سپورٹ — iPhone صارفین کے لیے نئی سہولت
-
پاکستان3 ہفتے agoمعصومہء سندھ کے روضہء اطہر کی تعمیر میں تاخیری حربے تشویشناک ہیں، کراچی ایڈیٹر کلب
-
تازہ ترین2 مہینے agoپاکستان کا ورچوئل اثاثہ جات ریگولیٹری اتھارٹی (PVARA) قائم

