پاکستان
عمران خان سے غداری، کرپشن، علیمہ خان سے اختلافات، گنڈا پور کیخلاف سنگین چارج شیٹ
پشاور ( صدائے سچ نیوز) خیبر پختونخواہ کے مستعفی وزیراعلیٰ کو کرپشن، عمران خان سے غداری اور ایسٹیبلشمنٹ سے وفاداری، علیمہ خان سے تنازعات سمیت پانچ سنگین الزامات کی چارج شیٹ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جس پر تفصیلی رپورٹ قارئین کے مطالعہ کے لیے پیش خدمت ہے
گنڈاپور پرکرپشن کے سنگین الزامات؟
گنڈاپور کی حکومت کے پہلے ہی سال سے کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں کے الزامات سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔
اگست 2024 میں عمران خان نے جیل سے ایک سخت پیغام دیا تھا کہ صوبائی حکومت کے وزرا کو اپنے محکموں میں بدعنوانی اور ناقص حکمرانی پر جوابدہ ہونا پڑے گا۔
اس کے بعد سابق وزیر مواصلات و تعمیرات شکیل احمد خان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
ستمبر 2024 میں گورنر فیصل کریم کنڈی نے الزام لگایا تھا کہ علی امین گنڈاپور صوبے میں بڑے پیمانے پر کرپشن میں ملوث ہیں۔
مئی 2025 میں نیب نے انکشاف کیا تھا کہ اپر کوہستان میں محکمہ مواصلات و تعمیرات کے افسران نے ضلعی اکانٹس آفس اور نیشنل بینک کے اہلکاروں کے ساتھ ملی بھگت سے 30 ارب روپے سے زائد کے جعلی منصوبے بنا کر قومی خزانے سے رقم نکلوائی۔
طالبان حکومت سے وفاقی حکومت کا بائی پاس کرکے روابط؟
گنڈاپور کی پالیسی کا ایک اور پہلو جو اکثر وفاقی حکومت سے ٹکراو کا باعث بنا، وہ عمران خان کی ہدایت پر عبوری افغان طالبان حکومت سے براہ راست رابطہ قائم کرنے کی کوشش تھی۔
ستمبر 2024 میں گنڈاپور نے کہا تھا کہ انہوں نے امن مذاکرات کے لیے افغان حکومت سے بات کرنے کی اجازت مانگی ہے، اور اگر اجازت نہ ملی تو وہ خود اقدام کریں گے۔
وفاقی حکومت نے سخت ردعمل دیا اور کہا کہ غیر ملکی حکومتوں سے مذاکرات کرنا صرف وفاق کا اختیار ہے۔
جنوری 2025 میں گنڈاپور نے اعلان کیا تھا کہ وہ دوطرفہ امور پر بات چیت کے لیے افغانستان میں ایک وفد بھیجنے کا منصوبہ رکھتے ہیں، اس اقدام پر وفاقی وزیر امیر مقام نے واضح کیا تھا کہ افغانستان سے مذاکرات صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔
بعد ازاں، مارچ میں گنڈاپور نے کہا کہ وہ وفاق سے جِرگے کے لیے منظوری کے منتظر ہیں اور انکشاف کیا کہ ان کا پاسپورٹ 9 مئی 2023 سے بلاک ہے، اس لیے وہ افغانستان نہیں جا سکتے۔
پی ٹی آئی احتجاج میںمنفی کردار کا الزام یا حقیقت؟
گنڈاپور کو اکثر اپنی ہی پارٹی کے کارکنوں کی جانب سے تنقید کا سامنا رہا، خاص طور پر عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاجی تحریک میں ان کے کردار پر۔
اکتوبر 2024 میں اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران تصادم ہوا، علی امین گنڈاپور اسلام آباد پہنچے تھے، مگر بعد ازاں کے پی ہاس چلے گئے، جس پر پارٹی رہنماں اور کارکنوں نے ان پر کارکنوں کو چھوڑنے کا الزام لگایا تھا۔
بعد میں ان کی اچانک واپسی اور اسمبلی میں ظہور پر حکومتی وزرا نے کہا تھا کہ انہوں نے ڈرامہ رچایا۔
اسی طرح نومبر کے احتجاج میں بھی ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ کارکنوں کو دھرنے میں چھوڑ کر چلے گئے۔
یہی اختلافات پارٹی کے اندرونی دھڑوں میں شدید کھچا کا باعث بنے، بشری بی بی نے بھی گنڈاپور کو ڈی چوک پر چھوڑنے پر تنقید کی تھی، جس کے بعد سوشل میڈیا پر انہیں غدار اور اسٹیبلشمنٹ کا بندہ کہا جانے لگا تھا۔
علیمہ خانم سے اختلافات؟
تازہ ترین تنازع عمران خان کی بہن علیمہ خانم کے ساتھ اختلافات کے بعد سامنے آیا، 29 ستمبر کو گنڈاپور نے جیل میں عمران سے ملاقات کی، اور اگلے ہی دن انہوں نے علیمہ خانم پر الزام لگایا کہ وہ پارٹی میں تقسیم پیدا کر رہی ہیں اور انہیں ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی ) کی مدد حاصل ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ علیمہ خانم بعض وی لاگرز کے ذریعے پارٹی رہنماں کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہیں، اس بیان کے بعد پارٹی میں مزید اختلافات بڑھ گئے تھے۔
6 ماہ تک گنڈاپور کو اپنی ہی پارٹی کے اندر سے زبردست مخالفت کا سامنا رہا تھا، انہیں غدار ، کمپرومائزڈ اور اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ کہا گیا۔
پارٹی پالیسی سے انحراف؟
ڈیرہ اسمعیل خان کے کلچی سے تعلق رکھنے والے سردار گنڈاپور کے لیے وزارتِ اعلی آسان ثابت نہیں ہوئی۔ پہلے آٹھ ماہ وہ عمران خان کے احکامات پر احتجاجی مارچ کرتے رہے تاکہ اسٹیبلشمنٹ پر دبا بڑھایا جا سکے، اس دوران گورننس پیچھے رہ گئی۔جب انہوں نے پارٹی کے برعکس پالیسی اپنائی، مثلا فوجی آپریشنز کی حمایت یا قانون سازی پر رضامندی، تو پارٹی کے کارکنوں نے ان پر تنقید کی۔
مائنز اینڈ منرلز بل کے موقع پر سوشل میڈیا نے الزام لگایا کہ یہ بل اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر ہے، اور عمران خان نے خود اس کی مخالفت کی۔
بعد میں بجٹ کے موقع پر عمران نے جیل سے پیغام دیا کہ بجٹ پیش نہ کیا جائے، مگر وزیراعلی نے موقف اپنایا کہ بجٹ پاس نہ ہوا تو حکومت گر جائے گی، جس پر عمران خان نے بالآخر اجازت دی۔
جب صوبے میں دہشت گردی کے خلاف فوجی کارروائیاں شروع ہوئیں تو علی امین گنڈاپور کو ایک بار پھر تنقید کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر ان ڈرون حملوں پر جن میں عام شہری جاں بحق ہوئے۔
بالآخر عمران خان کی بڑھتی ہوئی مایوسی اور ناراضی نے اس وقت گنڈاپور کے اقتدار کے اختتام کی راہ ہموار کر دی، جب انہیں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا گیا کہ وہ فوجی کارروائیوں کو روکنے میں ناکام رہے۔
یوں 19 ماہ کے ہنگامہ خیز دور کے بعد علی امین گنڈاپور کا وزارت اعلی سے استعفی ایک ایسے وقت آیا جب وہ نہ صرف وفاق، بلکہ اپنی ہی پارٹی کے اندرونی بحرانوں سے بھی نمٹنے میں ناکام نظر آ رہے تھے۔
-
ایکسکلوسِو2 ہفتے agoسیکرٹری اطلاعات کی پوسٹ کیلئے پانچ افسران کا انٹرویو، طارق خان بھی شامل
-
پاکستان3 ہفتے agoمسلم لیگ (ن) کے رہنما افتخار احمد چیمہ انتقال کر گئے
-
ایکسکلوسِو2 مہینے agoانٹیلی جنس ایجنسیوں کے5 نامزدافسران پر اعتراضات، بیرون ملک پریس قونصلر، اتاشیوں کی پوسٹنگ کامعاملہ لٹک گیا
-
پاکستان1 مہینہ agoخدا نخواستہ 600 افراد جاں بحق ہوئے تو لاشیں کہاں ہیں؟،مریم نواز
-
پاکستان2 مہینے agoاسلام آباد پولیس کا نیشنل پریس کلب پر دھاوا، صحافیوں پر بدترین تشدد، انسانی حقوق تنظیموں کی مذمت
-
ٹیکنالوجی3 مہینے agoiOS 26 میں مکمل اردو سپورٹ — iPhone صارفین کے لیے نئی سہولت
-
پاکستان3 ہفتے agoمعصومہء سندھ کے روضہء اطہر کی تعمیر میں تاخیری حربے تشویشناک ہیں، کراچی ایڈیٹر کلب
-
تازہ ترین3 مہینے agoپاکستان کا ورچوئل اثاثہ جات ریگولیٹری اتھارٹی (PVARA) قائم

